زندگی درد کی کہانی ہے
Poet: Firaq Gorakhpuri By: Affaq, Mansehraزندگی درد کی کہانی ہے 
 
 چشم انجم میں بھی تو پانی ہے 
 
 بے نیازانہ سن لیا غم دل 
 
 مہربانی ہے مہربانی ہے 
 
 وہ بھلا میری بات کیا مانے 
 
 اس نے اپنی بھی بات مانی ہے 
 
 شعلۂ دل ہے یہ کہ شعلہ ساز 
 
 یا ترا شعلۂ جوانی ہے 
 
 وہ کبھی رنگ وہ کبھی خوشبو 
 
 گاہ گل گاہ رات رانی ہے 
 
 بن کے معصوم سب کو تاڑ گئی 
 
 آنکھ اس کی بڑی سیانی ہے 
 
 آپ بیتی کہو کہ جگ بیتی 
 
 ہر کہانی مری کہانی ہے 
 
 دونوں عالم ہیں جس کے زیر نگیں 
 
 دل اسی غم کی راجدھانی ہے 
 
 ہم تو خوش ہیں تری جفا پر بھی 
 
 بے سبب تیری سرگرانی ہے 
 
 سر بہ سر یہ فراز مہر و قمر 
 
 تیری اٹھتی ہوئی جوانی ہے 
 
 آج بھی سن رہے ہیں قصۂ عشق 
 
 گو کہانی بہت پرانی ہے 
 
 ضبط کیجے تو دل ہے انگارا 
 
 اور اگر روئیے تو پانی ہے 
 
 ہے ٹھکانا یہ در ہی اس کا بھی 
 
 دل بھی تیرا ہی آستانی ہے 
 
 ان سے ایسے میں جو نہ ہو جائے 
 
 نو جوانی ہے نو جوانی ہے 
 
 دل مرا اور یہ غم دنیا 
 
 کیا ترے غم کی پاسبانی ہے 
 
 گردش چشم ساقیٔ دوراں 
 
 دور افلاک کی بھی پانی ہے 
 
 اے لب ناز کیا ہیں وہ اسرار 
 
 خامشی جن کی ترجمانی ہے 
 
 مے کدوں کے بھی ہوش اڑنے لگے 
 
 کیا تری آنکھ کی جوانی ہے 
 
 خودکشی پر ہے آج آمادہ 
 
 ارے دنیا بڑی دوانی ہے 
 
 کوئی اظہار ناخوشی بھی نہیں 
 
 بد گمانی سی بد گمانی ہے 
 
 مجھ سے کہتا تھا کل فرشتۂ عشق 
 
 زندگی ہجر کی کہانی ہے 
 
 بحر ہستی بھی جس میں کھو جائے 
 
 بوند میں بھی وہ بیکرانی ہے 
 
 مل گئے خاک میں ترے عشاق 
 
 یہ بھی اک امر آسمانی ہے 
 
 زندگی انتظار ہے تیرا 
 
 ہم نے اک بات آج جانی ہے 
 
 کیوں نہ ہو غم سے ہی قماش اس کا 
 
 حسن تصویر شادمانی ہے 
 
 سونی دنیا میں اب تو میں ہوں اور 
 
 ماتم عشق آنجہانی ہے 
 
 کچھ نہ پوچھو فراقؔ عہد شباب 
 
 رات ہے نیند ہے کہانی ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے







 
  
  
  
  
  
  
  
  
  
  
 