رہین واردات دل ہے نیر شاعری اپنی
مرتب کر رہا ہوں میں غزل میں زندگی اپنی
جھکی ہے پائے جاناں پر جبین عاشقی اپنی
متاع دین و ایماں بن گئی ہے کافری اپنی
نہ اب وہ عہد رنگیں ہے نہ اب وہ زندگی اپنی
لبوں تک آتے آتے لوٹ جاتی ہے ہنسی اپنی
بڑی عظمت کی حامل ہے شراب عاشقی اپنی
مے و مینا پہ چھائی جاتی ہے پاکیزگی اپنی
نگاہ یار کا طرز تخاطب آہ کیا کہئے
خبر ہونے نہ پائی اور دنیا لٹ گئی اپنی
یہی مسرور نظریں جن میں دنیائے مسرت ہے
انہیں مسرور نظروں نے مسرت لوٹ لی اپنی
ادھر ہے کفر نازاں اس طرف ایمان نازاں ہے
یہ کس کے آستاں پر ہے جبین بندگی اپنی
ذرا تو بھی تو دیکھے دل پہ کیا عالم گزرتا ہے
عطا کر دے مری نظروں کو اک دن برہمی اپنی