زندگی میری مگر مجھ سے ہی بغاوت ہے
میرے ہمنواؤں کو مجھ سے ہی عداوت ہے
کون ہے جسے حاصل زیست کی حمایت ہے
زندگی کی آرزو جیسے کوئی حماقت ہے
اپنی مرضی سے یہاں جینا بھی اذیت ہے
یہ کیسی پابندی ہے یہ کیسی روایت ہے
رنج و کلفت میں گھرے قید و بند سہتے رہے
حریت کی خواہش کیوں آج بھی حماقت ہے
یہ زندگی مجبور ہے کیونکر وفا سے دور ہے
زندگی سے بس مجھے اتنی سی شکایت ہے
عظمٰی یہ رمز وقت کی پہیلیوں نے سمجھائی
یہ زندگی اپنی سہی یہ زندگی امانت ہے