خشک آنکھوں میں سیل جاری ہے
دل میں زوروں کی ژالہ باری ہے
اشک آنکھوں سے سب بہاتے ہیں
ہم نے یہ جھیل دل میں اتاری ہے
میری آنکھوں میں تم نے دیکھا ہے
کتنے رنگوں کی آبیاری ہے
میرے دل کا حال وہی جان پائے گا
بارہا زیست جس نے ہاری ہے
اپنی تنہائیوں کو تمہارے نام کر دیا ہے
تمہارے نام پہ یہ زیست ہم نے واری ہے
روز و شب ایسے تماشوں میں گزرا جیون
کبھی ہار کے جیتے کبھی جیتی بازی ہاری ہے
اپنی حسرت بھری آنکھوں کو نئے خواب دئے
ہم نے بگڑی ہوئی تقدیر یوں سنواری ہے
اور نہ جانے ابھی کتنا سفر باقی ہے
گامزن ہیں ابھی تک اپنا سفر جاری ہے
زندگی خود ہی سکھاتی ہے زندگی کیا ہے
سیکھ جاؤ گے تو یہ زندگی تمہاری ہے
ہم کو معلوم نہیں عظمٰی حقیقت کیا ہے
ہم نے تو زندگی بس خواب میں گزاری ہے