زندگی کے امتحان بڑھتے چلے گئے
Poet: Sobiya Anmol By: sobiya Anmol, Lahoreزندگی کے امتحان بڑھتے چلے گئے
کہ ساتوں آسمان بڑھتے چلے گئے
سعادتیں کھو گئیں وقت کی کروٹ میں
ذِلتوں کے اِمکان بڑھتے چلے گئے
اُلجھا ہے ہر ذہن اُلجھنوں میں
بے سرو سامانی کے سامان بڑھتے چلے گئے
تشدد نے گود لیا ہر بار خطا کو
سوچے سمجھے نادان بڑھتے چلے گئے
جدید سے اِنقلابِ شدید کیا مانگنا
جدتوں میں بے ایمان بڑھتے چلے گئے
مصافحہ بر عکس رہا رابطوں کے
دِل ریش اطمینان بڑھتے چلے گئے
آثارِ قدیمہ رہے خطِ پیشانی پہ
لمحاتِ فکر وپریشان بڑھتے چلے گئے
مر گیا ہر فرد پیٹ میں درد لیے
مجبوریوں کے قبرستان بڑھتے چلے گئے
More Life Poetry
ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
اسلم






