زندگی کے امتحان بڑھتے چلے گئے
کہ ساتوں آسمان بڑھتے چلے گئے
سعادتیں کھو گئیں وقت کی کروٹ میں
ذِلتوں کے اِمکان بڑھتے چلے گئے
اُلجھا ہے ہر ذہن اُلجھنوں میں
بے سرو سامانی کے سامان بڑھتے چلے گئے
تشدد نے گود لیا ہر بار خطا کو
سوچے سمجھے نادان بڑھتے چلے گئے
جدید سے اِنقلابِ شدید کیا مانگنا
جدتوں میں بے ایمان بڑھتے چلے گئے
مصافحہ بر عکس رہا رابطوں کے
دِل ریش اطمینان بڑھتے چلے گئے
آثارِ قدیمہ رہے خطِ پیشانی پہ
لمحاتِ فکر وپریشان بڑھتے چلے گئے
مر گیا ہر فرد پیٹ میں درد لیے
مجبوریوں کے قبرستان بڑھتے چلے گئے