زندگی کے سودے میں سب خسارے ہی نکلے
دوست تو دوست میرے احباب بھی نہ اپنے نکلے
گنوائی تھی عُمر رواں جس شخص کی خاطر
اُس کے پاس تو نہ ملنے کو سو حیلے نکلے
وقت کے تیز دھارے نے چھلنی کر دیا مقدر
نصیبوں پہ جہاں بات آ ٹھہری،
وہاں ہم نہ مقدر کےسکندر نکلے
خامشی سی چھا گئی ھے لب و جاں میں آج کل
سناٹوں میں وہ گفتگو وہ قہقہے سبھی کھوکھلے نکلے
نام سے جس کے منسوب تھا دل کی بند کتاب کا ہر ورق
اُس کے نصاب میں تو ہم فقط ، دل بہلانے کا کردار نکلے
میں تو ہوں بنجارہ گم گشتہ راہ کا مسافر
وہ منزل سے آشنا سہی مگر “فائز“،
کبھی تو مجھے ڈھونڈنے کے بہانے نکلے