زندگی یوں ہی کہیں لکھتے لکھتے گزر نہ جائے
ڈرتا ہوں لفظوں سے دل کی بات نکل نہ جائے
اور اگر لکھ ہی دوں دل کے افسانے کو قلم سے میں
کہیں آنکھوں میں چھپی آنسو کی برسات نکل نہ جائے
مل جاتا ھے جو کبھی خواب میں وہ مہرا بن کر مجھے
میں کرتا ہوں دعا نہ ہو صبح کہیں رات نکل نہ جائے
وفا کب کی ھے اس بے درد زندگی نے کسی سے بھی
سوچتا ہوں پھر اسے سوچنے کا اختیار نکل نہ جائے
لکھتے لکھتے تو کیوں لکھ گیا اپنا ہی درد! اے تنویر
پھر اس بار بھی روتے ہوئے کہیں بہار نکل نہ جائے