زندہ ہیں مگر کتنے عذابوں سے جڑے ہیں
Poet: syed aqeel shah By: syed aqeel shah, sargodhaزندہ ہیں مگر کتنے عذابوں سے جڑے ہیں
 ہم لوگ حقیقت میں سرابوں سے جڑے ہیں
 
 شاید وہ حقیقت میں فسانوں کی طرح تھے
 تاریخ میں جو لوگ کتابوں سے جڑے ہیں
 
 تحقیق میں نکلو گے تو پھر راز کھلیں گے
 ہم لوگ بظاہر تو نصابوں سے جڑے ہیں
 
 اک تُو کہ مری سوچ کا محور ہے ترے ساتھ
 کتنے ہی سوالات جوابوں سے جڑے ہیں
 
 ٹوٹیں گے ترے خواب کے منظر تو کھلے گا
 کس درجہ حقائق ترے خوابوں سے جڑے ہیں
 
 جانے کیوں وہم کی یہ ہوا میں بھی ہیں محفوظ
 یہ گھر جو تری سوچ کے دھاگوں سے جڑے ہیں
 
 چونک اُٹھیں گے اِک دھوپ کے صحرا میں عقیل اب
 وہ لوگ جو غفلت کی شرابوں سے جڑے ہیں
More Life Poetry
ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
 
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
اسلم






