یہ آنکھ رونے کی شدت سے لال تھوڑی ہے
ہے مگر اتنا ملال تھوڑی ہے
بس اپنے واسطے ہی فکر ہے یہاں سب کو
یہاں کسی کو کسی کا خیال تھوڑی ہے
پروں کو کاٹ دیا ہے اڑان سے پہلے
یہ خوف ہجر ہے شوق وصال تھوڑی ہے
کبھی کبھی ہارو یا ہنستے رہو
ہمیشہ جیت ہی جانا کمال تھوڑی ہے
لگانا پڑتی ہے ڈبکی ابھرنے سے پہلے
غروب ہونے کا مطلب زوال تھوڑی ہے