زندگی بھر زندگی کا یوں زیاں کرتے رہے
دل کی حالت سنگدلوں سے ہم بیاں کرتے رہے
سارا دن تو قہقہوں کے شور کا مرکز رہے
رات کے پچھلے پہر آہ و فغاں کرتے رہے
مات کھانا کام تھا جس کے ہم ماہر بنے
یہ یہاں کرتے رہے ، یہ ہی وہاں کرتے رہے
آشیانے کو بنا کر سانحوں کی داستاں
حادثوں کے شہر کو ہم آشیاں کرتے رہے
تھی کچہری زندگی کی اور مقدمہ عشق کا
جس میں دل ملزم ہوا ، ہم پیشیاں کرتے رہے
ان سے مل کر حال دل کہنے کی ہمت نہ ہوئی
خود سے جتنے شکوے تھے بعد ازاں کرتے رہے