زیست کسی آدمی کی ضائع بھی تو ہوتی ہے

Poet: ناصر نواز By: nasir nawaz, karachi

لازم ہے کہ عام سے چہرے چاہے جائیں؟
حیات یوں تنہا بھی تو بسر ہوتی ہے

اک کمرہ ہو اور چائے کی پیالی بھی
آنکھوں میں زرا نمی بھی تو ہوتی ہے

کوئی مہ جبیں یا کوئی بھی خوشی ہو کہیں؟
آدمی کے رزق میں قلت بھی تو ہوتی ہے

بنانے والے نے دل دیا صنف نازک جیسا
مگر صنف نازک بہت دور بھی تو ہوتی ہے

اب سب کو سب ہی سے مطلب ہے فقط
اب دلوں میں بھلا ذات کہاں ہوتی ہے

تو بھی آباد ہوتا کسی دل کے مکان میں
مکین ہونے کے لئے صورت بھی تو ہوتی ہے

میلا لگا رکھا ہے کم بخت اِس روزگار کے سبب
آدمی کو وحشت سے محبت بھی تو ہوتی ہے

پر فحاش دور، اور چارہ گر نہیں کوئی
ایسے میں خدا سے ملاقات بھی ہوتی ہے

یہ اذیتیں کچھ بھی نہیں بدلے تیرے اعمال کے
مسجود ہوں شرمسار ہوں معافی بھی تو ہوتی ہے

چہرے پر مل کر خاک، مقدر میں مقفل ہوجا ناصر
زیست کسی آدمی کی ضائع بھی تو ہوتی ہے

Rate it:
Views: 205
20 Apr, 2024
More Sad Poetry
ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے یہاں لیکن
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
MAZHAR IQBAL GONDAL