لازم ہے کہ عام سے چہرے چاہے جائیں؟
حیات یوں تنہا بھی تو بسر ہوتی ہے
اک کمرہ ہو اور چائے کی پیالی بھی
آنکھوں میں زرا نمی بھی تو ہوتی ہے
کوئی مہ جبیں یا کوئی بھی خوشی ہو کہیں؟
آدمی کے رزق میں قلت بھی تو ہوتی ہے
بنانے والے نے دل دیا صنف نازک جیسا
مگر صنف نازک بہت دور بھی تو ہوتی ہے
اب سب کو سب ہی سے مطلب ہے فقط
اب دلوں میں بھلا ذات کہاں ہوتی ہے
تو بھی آباد ہوتا کسی دل کے مکان میں
مکین ہونے کے لئے صورت بھی تو ہوتی ہے
میلا لگا رکھا ہے کم بخت اِس روزگار کے سبب
آدمی کو وحشت سے محبت بھی تو ہوتی ہے
پر فحاش دور، اور چارہ گر نہیں کوئی
ایسے میں خدا سے ملاقات بھی ہوتی ہے
یہ اذیتیں کچھ بھی نہیں بدلے تیرے اعمال کے
مسجود ہوں شرمسار ہوں معافی بھی تو ہوتی ہے
چہرے پر مل کر خاک، مقدر میں مقفل ہوجا ناصر
زیست کسی آدمی کی ضائع بھی تو ہوتی ہے