اُتار دے ساتوں پردےوسیع آسمانوں کے
کُھلے در پُکارتے ہیں اُجڑے ہوئے مکانوں کے
گِرا دےگزشتہ روحیں ساری پھر زمیں پہ
کہ جلتے ہیں برسوں سے برس آشیانوں کے
خیراتِ خوشی کو کچھ وسعت دو اے دُنیا
غم بھی بڑھتا نہیں سائے میں ویرانوں کے
کہیں ٹوٹی اُمید‘خوں بے رنگ‘تو کہیں اُجڑی وفائیں
نشان ملتے ہیں رشتوں میں پُرانے کباڑ خانوں کے
لیے پھرتے ہیں پیٹ میں جیون نرق کے ہنگامے
لاچار بے بس مریض کتنے ہی مریض خانوں کے
میں نے دیکھے ہیں موقعِ الم اور بھی بہت
میں نے دیکھے ہیں طوفاں بسے قبرستانوں میں