ساتھ دینے کا جِس کا وعدہ تھا
آہ ! وہ شخص کتنا سادہ تھا
نا مکمل تھی میں بنا اس کے
وہ بھی میرے بغیر آدھا تھا
چل رہا تھا وہ جیسے رستے پہ
اُس کی کچھ سمت تھی نہ جادہ تھا
جانے کیا ہم نے سوچ رکھا تھا
جانے کیا وقت کا اِرادہ تھا
تیرا میرا اُسی جگہ ملنا
بیتے لمحوں کا ہی اعادہ تھا
وہ بلا کا خطیب تھا لیکن
چپ کا اوڑھے ہوئے لبادہ تھا
وقت نے جو ستم کیا مجھ پر
وہ تصور سے بھی ذیادہ تھا
وہ نہ لوٹا مگر کبھی عذراؔ
لوٹ آنے کا جس کا وعدہ تھا