ساحل پہ لائی اور سفینے ڈبو دیے
یوں زندگی نے ہم کو ہنسایا کہ رو دیے
اہل چمن نے جشن بہاراں کے نام سے
وہ داستاں سنائی کہ دامن بھگو دیے
ضبط غم فراق کی مجبوریاں نہ پوچھ
دل میں کسی کا نام لیا اور رو دیے
فریاد کی ہے بات مگر اب سنے گا کون
اک ناخدا نے کتنے سفینے ڈبو دیے
اے وائے سعیٔ ضبط کہ اکثر ترے حضور
ہنسنے کا اہتمام کیا اور رو دیے
ان آنسوؤں کا دیکھنے والا کوئی نہ تھا
جن آنسوؤں میں ہم نے تبسم سمو دیے
راہ جنوں میں کام خرد سے لیا ہی تھا
ضعف طلب نے پاؤں میں کانٹے چبھو دیے
تجدید عہد عشق ہوئی آج یوں شمیمؔ
نظریں ملیں سلام کیا اور رو دیے