ساحل پہ لائی اور سفینے ڈبو دیے

Poet: شمیم جے پوری By: Rana, Karachi

ساحل پہ لائی اور سفینے ڈبو دیے
یوں زندگی نے ہم کو ہنسایا کہ رو دیے

اہل چمن نے جشن بہاراں کے نام سے
وہ داستاں سنائی کہ دامن بھگو دیے

ضبط غم فراق کی مجبوریاں نہ پوچھ
دل میں کسی کا نام لیا اور رو دیے

فریاد کی ہے بات مگر اب سنے گا کون
اک ناخدا نے کتنے سفینے ڈبو دیے

اے وائے سعیٔ ضبط کہ اکثر ترے حضور
ہنسنے کا اہتمام کیا اور رو دیے

ان آنسوؤں کا دیکھنے والا کوئی نہ تھا
جن آنسوؤں میں ہم نے تبسم سمو دیے

راہ جنوں میں کام خرد سے لیا ہی تھا
ضعف طلب نے پاؤں میں کانٹے چبھو دیے

تجدید عہد عشق ہوئی آج یوں شمیمؔ
نظریں ملیں سلام کیا اور رو دیے

Rate it:
Views: 455
30 Jun, 2021
More Sad Poetry
ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے یہاں لیکن
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
MAZHAR IQBAL GONDAL