مشقتیں اٹھانےکی عادت ہے
سزا ئیں جھیلنے کی عادت ہے
خوش ہے اس دنیا ِعارضی پہ
ذلتیں اٹھانے کی عادت ہے
نہیں خبر بار گراں کیا ہے
حدیں توڑیں کی عادت ہے
یہ جہاں وہ جہاں دے ڈالا
پھر بھی مانگنے کی عادت ہے
گلہ کیا بخل ِ انسان کا
نعمتیں چھپانے کی عادت ہے
شکوہ رہتا ہے لب ہمیشہ
روتے کو رونے کی عادت ہے
نہیں پکڑتا خطاِ انسان پہ یکدم
اسے بخشنے کی عادت ہے
کھینچ کھینچ نکالے نارِ جہنم سے
پر اسے جلنے کی عادت ہے
تو بھی تو انسان ہے عرفان
تجھے بھی بھاگنے کی عادت ہے