ساغر و جام کو چھلکاؤ کہ کچھ رات کٹے
جام کو جام سے ٹکراؤ کہ کچھ رات کٹے
کھائے جاتی ہے یہ تنہائی یہ تاریکئ شب
دو گھڑی کے لئے آ جاؤ کہ کچھ رات کٹے
چپ تمہاری مجھے دیوانہ بنا دیتی ہے
آج للہ نہ شرماؤ کہ کچھ رات کٹے
ہاں یہ وعدہ رہا اب پھر نہیں روکیں گے کبھی
آج کچھ دیر ٹھہر جاؤ کہ کچھ رات کٹے
ساز و نغمہ ہی سہی ہاں مے و مینا ہی سہی
ساقیا جام ہی بھر لاؤ کہ کچھ رات کٹے
اے ذکیؔ ہجر کی راتیں نہیں کاٹے کٹتیں
کوئی اچھی سی غزل گاؤ کہ کچھ رات کٹے