عجب طرزِ جنوں سے دل ہوا ہے آشنا ساقی
نیا جادہ ، نئی منزل ، نیا ہے رہنما ساقی
کوئی جدت نہیں تجھ میں بہ انداز ِ جدا ساقی
وہی غمزہ ، وہی عشوہ ، وہی ناز و اَدا ساقی
در ِ میخانہ سے گزرا ، عجب تاثیر و بو پائی
نظر آئی مجھےاس میں ، تری اِک اِک ادا ساقی
نظام ِ میکدہ تیرا، تجھے ،ہمدَم ! مبارک ہو
مگراتنا بتامجھ کو کہ چَھن سے کیا گِرا ساقی
جہاں سے نفرتوں کی ظلمتیں کافور ہوجائیں
کوئی قندیل الفت کی ذرا ایسی جَلا ساقی
تذبذب یا تجامل کا مری جاں ! میں نہیں قائل
جو کہنا ہے ، کہو ،حق ہے ، مگر ہاں برمَلا ساقی
مجھےسرشارجوکردےمرےرب کی محبت سے
وہی اک بادہء توحید لا مجھ کو پلا ساقی
وہ میرے لوح ِ دلِ پر کیوں سدا تیشے چلاتا ہے
مجھےآزار دیتا ہے ، سبب کچھ تو بتا ساقی
خدائے پاک کی نظر ِ عنایت ہے توکیا غم ہے
زمانے سے کہو کیوں آپ اپنا مدعا ساقی
یہ لوگوں کا عمل ہے جو اسے مطعون کرتا ہے
زمانہ خود نہیں ہوتا کبھی اچھا برا ساقی یہ مانا
زندگی کے پیچ و خَم سلجھا نہیں سکتے
بڑے پر سوز ہیں لیکن ،مرے حرف و نوا ساقی
مری سادہ طبیعت نے عجب یہ رنگ پایا ہے
کروں نہ تنگیء حالات پر آہ و بکا ساقی
بَلا نوشوں سے یہ کہدو ہمہ تن گوش ہوجائیں
ہوا ہے پھرکوئی آشفتہ سَر، نغمہ سَرا ساقی
سدا ہر کوچہء الفت میں یوں دَر دَربھٹکنا کیا
چلے آؤ درِ رب پر ، کہ یہ دَر ہے کھلا ساقی
شمیم! اس شوخ کو یہ راز ِ حق کوئی توسمجھائے
کہ کشتی ڈوب جاتی ہے ، نہ ہو گر ناخدا ساقی