ساقی آج مےخانے میں بے حساب رکھنا
ہرایک جام بنام اپنے شباب رکھنا
لفظوں کے معنیوں میں دقت نہ ہو مجھے
یوں واضح اپنے چہرے کا تو کتاب رکھنا
تار زلف پے نغمہ سرائی کا شیدائی ہوں
آغوش جان میں سر اپنا مثل رباب رکھنا
موج عشق میں یوں بسا رہے طوفان
ہر پل برپا تو محبت میں انقلاب رکھنا
جسے دیکھ کر میرا دل مرنے کو مچلتا ہے
حسین پھول تو زلفوں میں یہ گلاب رکھنا
میرے بیاں پے جو بھڑکتا ہے سلگتا ہے
نام اُسکا تُو رقیب خانہ خراب رکھنا