نگاہ صحرا مگر دل کی زمین جل تھل ہے
دل کو سکون ہے لیکن نگاہ بوجھل ہے
میرے اطراف میں یہ کیسا شور برپا ہے
کوئی تو بات ہے جو آج ایسی ہلچل ہے
چمک چہرے پہ اور دل میں اک تلاطم ہے
تیری نگاہوں میں یہ آج کیسی جھلمل ہے
میرے وجود کا ہر انگ نکھر آیا ہے
مجھے قرار ہے لیکن یہ روح بےکل ہے
وہ شخص میری نگاہوں سے دور رہتا ہے
مگر وہ روبرو لگتا ہے جیسے پل پل ہے
نگاہیں کس بھنور میں ڈوب رہی ہیں عظمٰی
کہ سامنے کا نظارہ نظر سے اوجھل ہے