ایک سپاہی کی پکار
یہ کیسا ہے گھر میں نہیں جانتا؟
عالم ارواح میں سنا تھا ا س بارے میں
مجھے بھی گیا تھا چنا اس دھارے میں
بڑھانی ہے گلشن کی خوشحالی مجھے
قائم رکھنی ہے ہر نئے سورج کی لالی مجھے
تحفظ چمن کے لیے لایا گیا ہوں میں
کسی بڑے مقصد کے لیے بلایا گیا ہوں میں
میرا نصب العین ہے اک شہید سا
اور چمن کا دشمن مانند یزید سا
ناپید کر دی ہے خوشحالی اور استحکام کی بہار
خون جگر سے کروں گا میں اب اس چمن کو آبیار
شام کی سرخی ہے آج لہو رنگ
میرا ہم مذہب تھا مقابل اور سنگ
گلے سے لگاؤں یا پچھاڑوں اسے
میں چھوڑ دوں یا ماروں اسے
اس واسطے تو نہیں تھا میں بلایا گیا
بھائی بھائی کو کیوں آج ایسے آزمایا گیا
فلک بھی نوحہ کناں ہے آج
ماؤں کی کوکھ پر
اتنے سر ہیں اکٹھے
نیزوں کی نوک پر
خود کی جاں دے کر جنت بنائی تم نے
اور محافظ چمن کی جاں سے جنت جلائی تم نے
اک ہی کوکھ سے جنم لیا ہے سب نے
اسلام کی مالا میں بھائی بھائی پرویا ہے رب نے
یہ کس بے مذہب کے کہنے پر مر رہے ہو؟
یہ کس جنت کی جنگ تم لڑ رہے ہو؟
کیا نہیں ہے تمہارا خدا پر ایمان ایک
کلمہ٬ رسول اور قرآن ایک
پھر کس الجھن میں ہو کم عقلو؟
کیا ہو نہیں سکتے تم سب مسلمان ایک؟
کیوں برپا ہے یہ حشر؟
میں نہیں جانتا
کیوں خوشنما ہیں کلیسا کی گھنٹیاں
اور اللہ اکبر کی صدا میں اتنا در؟
میں نہیں جانتا
خدا کے لیے چھوڑ دو اب کہ منطقیں الگ
ایک ہی خدا کی کیسے ہوں گی جنتیں الگ
اکٹھے ہوں جس میں حق و کفر
خدا کے ہاں ہے گر کوئی ایسا شہر
تمہیں ہو شاید اس کی خبر
میں نہیں جانتا میں نہیں جانتا