سانس لینا بھی سزا لگتا ہے
اب تو مرنا بھی روا لگتا ہے
کوہِ غم پر جو دیکھوں تو مجھے
دشت، آغوشِ فنا لگتا ہے
سرِ بازار ہے یاروں کی تلاش
جو گزرتا ہے، فضا لگتا ہے
مُسکراتا ہے جو اس عالم میں
بخدا، مُجھ کو خدا لگتا ہے
نُطق کا ساتھ نہیں دیتا ذہن
شُکر کرتا ہوں، گِلہ لگتا ہے
اتنا مانوس ہوں سناٹے سے
کوئی بولے تو بُرا لگتا ہے
اس قدر تُند ہے رفتارِ حیات
وقت بھی رشتہ بپا لگتا ہے