سانسوں کی ریل دوستو چلتی چلی گئی
اور ساتھ اپنی عمر بھی ڈھلتی چلی گئی
دریا قریب ہوتے ہوئے بھی سنو میاں
بستی ہمارے ضبط کی جلتی چلی گئی
شعلے بھڑک اٹھے ہیں بدن کے حصار میں
اور برف میرے دل میں پگھلتی چلی گئی
مقتل کی سمت اپنی جوانی خلوص سے
بے خوف ہوکے آج مچلتی چلی گئی
ہم تو سبھی کے راز چھپائے رہے مگر
دنیا ہمارے راز اگلتی چلی گئی
وشمہ دعائیں ماں کی رہیں ساتھ اس لیے
دشوار راستوں میں سنبھلتی چلی گئی