سانپ سپولے پالے ہم نے، پالے کالے ناگ بہت
ان کے کارن جھیلے ہر پل، اجلے تن پر داگ بہت
ہمدردی کے بول گوارا کب کر لیتا ہے کوئی
جب تن کے نوچن کی باری، تب تو آئیں کاگ بہت
ملنے کو تو مل جائے گی پر نا ہو گی من چاہی
مجھ کو باس کہاں تجھ جیسی، تجھ کو مجھ سے باگ بہت
پڑتے پڑتے پڑ گئیں آخر، بیچ دراڑیں اپنے بھی
ٹھنڈک دینے والے کم تھے، بھڑکانے کو آگ بہت
کاش ہمیں تعبیریں ملتیں، دیکھے تھے جو خواب حسیں
سننے کو تو سنتے آئے خوشحالی کے راگ بہت
اک دن ہم تم سو جائیں گے اوڑھ کے اپنی پوری نیند
لیکن جو تُو اچھا چاہے، رب کی مان کے جاگ بہت
کس نے اب تک پایا حسرتؔ علم تو ایک سمندر ہے
ہم خود پر جو لاگو کر لیں تو ہم کو ہے جھاگ بہت