سایہ بن کر ساتھ ہر گھڑی رہتی ہے
اُداسی میرے پیچھے پڑی رہتی ہے
ایک تصویر یادِ ماضی لئے ہوئے
دل کے آئینے میں کھڑی رہتی ہے
رات بھر اُن کے تصور میں اے ستارو
چاند سے میری آنکھ لڑی رہتی ہے
کوئی نہیں ہے کسی کا پُرسانِ حال
سبھی کو اپنی اپنی پڑی رہتی ہے
شاید آ جائے امر میرا چارہ گر
اِسی اُمید پر سانس اَڑی رہتی ہے