سب اپنی ذات کے اظہار کا تماشا ہے
وگرنہ کون یہاں پانیوں پہ چلتا ہے
تمام عمر کی نغمہ گری کے بعد کھلا
یہ شہر اپنی سماعت میں سنگ جیسا ہے
اسے بھی ڈھنگ نہ آئے گا بات کرنے کا
مجھے بھی عرض ہنر کا کہاں سلیقہ ہے
میرا وجود ہے اور بے شمار آنکھیں ہیں
یہ سارا شہر ہے اور اس میں ایک چہرہ ہے
چھتوں سے دھوپ تو رکتی ہے بھوک تلتی نہیں
تلاش رزق میں گھر سے نکلنا پڑتا ہے
کہا نہیں تھا تجھے اس کے ساتھ ساتھ نہ چل
ہوا کے سامنے کس کا چراغ جلتا ہے