سب کو رسوا باری باری کیا کرو
Poet: راحت اندوری By: راحیل, Islamabadسب کو رسوا باری باری کیا کرو
ہر موسم میں فتوے جاری کیا کرو
راتوں کا نیندوں سے رشتہ ٹوٹ چکا
اپنے گھر کی پہرے داری کیا کرو
قطرہ قطرہ شبنم گن کر کیا ہوگا
دریاؤں کی دعوے داری کیا کرو
روز قصیدے لکھو گونگے بہروں کے
فرصت ہو تو یہ بے گاری کیا کرو
شب بھر آنے والے دن کے خواب بنو
دن بھر فکر شب بے داری کیا کرو
چاند زیادہ روشن ہے تو رہنے دو
جگنو بھیا جی مت بھاری کیا کرو
جب جی چاہے موت بچھا دو بستی میں
لیکن باتیں پیاری پیاری کیا کرو
رات بدن دریا میں روز اترتی ہے
اس کشتی میں خوب سواری کیا کرو
روز وہی اک کوشش زندہ رہنے کی
مرنے کی بھی کچھ تیاری کیا کرو
خواب لپیٹے سوتے رہنا ٹھیک نہیں
فرصت ہو تو شب بے داری کیا کرو
کاغذ کو سب سونپ دیا یہ ٹھیک نہیں
شعر کبھی خود پر بھی طاری کیا کرو
More Rahat Indori Poetry
میرے اشکوں نے کئی آنکھوں میں جل تھل کر دیا میرے اشکوں نے کئی آنکھوں میں جل تھل کر دیا
ایک پاگل نے بہت لوگوں کو پاگل کر دیا
اپنی پلکوں پر سجا کر میرے آنسو آپ نے
راستے کی دھول کو آنکھوں کا کاجل کر دیا
میں نے دل دے کر اسے کی تھی وفا کی ابتدا
اس نے دھوکہ دے کے یہ قصہ مکمل کر دیا
یہ ہوائیں کب نگاہیں پھیر لیں کس کو خبر
شہرتوں کا تخت جب ٹوٹا تو پیدل کر دیا
دیوتاؤں اور خداؤں کی لگائی آگ نے
دیکھتے ہی دیکھتے بستی کو جنگل کر دیا
زخم کی صورت نظر آتے ہیں چہروں کے نقوش
ہم نے آئینوں کو تہذیبوں کا مقتل کر دیا
شہر میں چرچا ہے آخر ایسی لڑکی کون ہے
جس نے اچھے خاصے اک شاعر کو پاگل کر دیا
ایک پاگل نے بہت لوگوں کو پاگل کر دیا
اپنی پلکوں پر سجا کر میرے آنسو آپ نے
راستے کی دھول کو آنکھوں کا کاجل کر دیا
میں نے دل دے کر اسے کی تھی وفا کی ابتدا
اس نے دھوکہ دے کے یہ قصہ مکمل کر دیا
یہ ہوائیں کب نگاہیں پھیر لیں کس کو خبر
شہرتوں کا تخت جب ٹوٹا تو پیدل کر دیا
دیوتاؤں اور خداؤں کی لگائی آگ نے
دیکھتے ہی دیکھتے بستی کو جنگل کر دیا
زخم کی صورت نظر آتے ہیں چہروں کے نقوش
ہم نے آئینوں کو تہذیبوں کا مقتل کر دیا
شہر میں چرچا ہے آخر ایسی لڑکی کون ہے
جس نے اچھے خاصے اک شاعر کو پاگل کر دیا
نصرت
شہر کیا دیکھیں کہ ہر منظر میں جالے پڑ گئے شہر کیا دیکھیں کہ ہر منظر میں جالے پڑ گئے
ایسی گرمی ہے کہ پیلے پھول کالے پڑ گئے
میں اندھیروں سے بچا لایا تھا اپنے آپ کو
میرا دکھ یہ ہے مرے پیچھے اجالے پڑ گئے
جن زمینوں کے قبالے ہیں مرے پرکھوں کے نام
ان زمینوں پر مرے جینے کے لالے پڑ گئے
طاق میں بیٹھا ہوا بوڑھا کبوتر رو دیا
جس میں ڈیرا تھا اسی مسجد میں تالے پڑ گئے
کوئی وارث ہو تو آئے اور آ کر دیکھ لے
ظل سبحانی کی اونچی چھت میں جالے پڑ گئے
ایسی گرمی ہے کہ پیلے پھول کالے پڑ گئے
میں اندھیروں سے بچا لایا تھا اپنے آپ کو
میرا دکھ یہ ہے مرے پیچھے اجالے پڑ گئے
جن زمینوں کے قبالے ہیں مرے پرکھوں کے نام
ان زمینوں پر مرے جینے کے لالے پڑ گئے
طاق میں بیٹھا ہوا بوڑھا کبوتر رو دیا
جس میں ڈیرا تھا اسی مسجد میں تالے پڑ گئے
کوئی وارث ہو تو آئے اور آ کر دیکھ لے
ظل سبحانی کی اونچی چھت میں جالے پڑ گئے
ریاض
اگر خلاف ہیں ہونے دو جان تھوڑی ہے اگر خلاف ہیں، ہونے دو، جان تھوڑی ہے
یہ سب دھواں ہے، کوئی آسمان تھوڑی ہے
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
میں جانتا ہوں کہ دشمن بھی کم نہیں لیکن
ہماری طرح ہتھیلی پہ جان تھوڑی ہے
ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے
ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے
جو آج صاحبِ مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے
یہ سب دھواں ہے، کوئی آسمان تھوڑی ہے
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
میں جانتا ہوں کہ دشمن بھی کم نہیں لیکن
ہماری طرح ہتھیلی پہ جان تھوڑی ہے
ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے
ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے
جو آج صاحبِ مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے
ساجد ہمید






