سب کی اِک اوقات " عشق نہ پُوچھے ذات "
بالکل بُھول گئے کرنی تھی کیا بات
سَستا کر دے گئی زر کی یہ افراط!
اَب سے تیرے ہیں میرے دن اور رات
سچُے جذبوں سے مہنگی ہو گئی دھات
اب کے خُوب ہوئی بِن موسم برسات
کٹ ہی جاتی ہے کیسی بھی ہو رات !
باسی ہوئی جائے دل میں رکھی بات
کچّی ڈور، میاں! کب تک دیتی ساتھ!
گِرہیں کھولے گا جانے کب وہ ہات !
تجھ کو چاہوں مَیں کیا میری اوقات!
کیسے اُجڑ گئے ؟ خوابوں کے باغات
وقت سمندر میں ایک سے ہیں دن رات
آگے گہری کھائی پیچھے ہے ظُلمات!