کیا ہے زیست کو یوں غم سے آشنا مجھ سے
سبھی کے درد کو دل میں بسا لیا مجھ سے
چلی تو آئی تھی کچھ دور ساتھ ساتھ ترے
پھر اس کے بعد خدا جانے کیا ہوا مجھ سے
مرے خیال کے وحشت کدے میں آتے ہی
جنوں کی نوک سے چھوڑا ہے رشتہ مجھ سے
زمیں پہ آ کے ستاروں نے یہ کہا مجھ سے
ترے قریب سے گزرا ہے قافلہ مجھ سے
کبھی کبھی تو یہ وحشت بھی ہم پہ گزری ہے
کہ دل کے ساتھ ہی دیکھا ہے ڈوبنا مجھ سے
چٹخ اٹھی ہے رگ جاں تو یہ خیال آیا
کسی کی یاد سے جڑتا ہے سلسلہ مجھ سے
چلوبھلا دیا جتنے بھی تھے گلے شکوے
چلو معاف کیا وشمہ نے سنا مجھ سے