ستارے توڑنے والوں خراجِ چاندنی دینا
دہکتی دھوپ کو چھاؤں میں لا کر اک خوشی دینا
محبت بانٹ لینے سے یہ دولت اور بڑھتی ہے
کوئی مانگے اگر تم سے تو اُس کو زندگی دینا
میں اپنی عمر کے عاشور کا ڈھلتا ہوا سورج
نئی صبح کو میرا اب سلامِ آخری دینا
کہیں اپنے ہی اندھیروں میں ہے بکھرا ہوا آخر
وہ اک سورج کہ جس کے فرض میں تھا روشنی دنیا
زمانے کی کوئی دولت نہ دے لیکن مرے مالک
مجھے مخلص مرے رشتوں میں کوئی نہ کمی دینا
یہاں پہ دفن کر جاؤ سبھی فرقے یہ سب ذاتیں
نئی نسلوں کو ہرگز نہ یہ زہرِ دشمنی دینا
عقیلؔ اپنی ہی افکاروں میں خود برباد ہوتیں ہیں
جو قومیں بھول جاتی ہیں زمانے کو ہنسی دینا