ستارے ٹم ٹماتے ہیں تو کوئی بہت یاد آتا ہے
نظارے جو گیت گاتے ہیں تو کوئی بہت یاد آتا ہے
اُسے آنا نہیں ہے واپس مگر پھر بھی ہاتھ اپنے
دُعا کو جب بھی اُٹھاتے ہیں تو کوئی بہت یاد آتا ہے
کبھی جُگنو کبھی تارے اور گُھونجے کبھی بادل
ہمارا دل جب جلاتے ہیں تو کوئی بہت یاد آتا ہے
بہت کوشش سے بھی ہم اُسے کبھی بُھول نہ پائے
کبھی بھی دل لگاتے ہیں تو کوئی بہت یاد آتا ہے
راستوں پر بکھری ہے کُچھ مہک پچھلی رفاقتوں کی
کسی سے ملنے جاتے ہیں تو کوئی بہت یاد آتا ہے
ہماری شاعری پر بھی اُسی کی حکمرانی ہے مسعود
ہم غزل جب بھی سُناتے ہیں تو کوئی بہت یاد آتا ہے