ستم زندگی کے پیہم اُٹھائے جا رہے ہیں
بندے خدا کے ہیں، سو رولائے جا رہے ہیں
جب کھیل ہی سارا مشیت کا ہے تو
ہمیں خواب ہی کیوں دیکھائے جا رہے ہیں
اس کی گلی سے جو بھی گزرتے ہیں
گیت وہ اس کے ہی گائے جا رہے ہیں
ان کی آخری دید ہو گی یہ جان کر
کچھ الگ سے آج وہ سجائے جا رہے ہیں
آرزوئیں کم نہ ہوں گی جان کر بھی
ہم یوں ہی اپنا جی جلائے جا رہے ہیں