ستم میرے دل پہ وہ یوں دیتا رہا
رات بھر بے وفا یاد آتا رہا
نہ ہوا احساس اسے کسی کی تڑپ کا
یہاں میں صحرا میں تنہا ہی چلاتا رہا
چاہتا تھا جسے میں خود سے بھی زیادہ
وہ مجھے درد دے دے کر آزماتا رہا
لکھتا رہا جسے اپنے جگر کے خون سے خط
پتہ چلا وہ تو بنا پڑھے ہی جلاتا رہا
جب اس کے لوٹ آنے کی کوئی امید نہیں باقی وصی
تو کیوں رات بھر خود کو بہلاتا رہا