ستم ہے کرنا، جفا ہے کرنا، نگاہِ اُلفت کبھی نہ کرنا
تمہیں قسم ہے ہمارے سر کی، ہمارے حق میں کمی نہ کرنا
ہماری میّت پہ تم جو آنا تو چار آنسو گرا کے جانا
ذرا ہے پاس آبرو بھی کہیں ہماری ہنسی نہ کرنا
کہاں کا آنا کہاں کا جانا، وہ جانتے ہیں تھیں یہ رسمیں
وہاں ہے وعدے کی بھی یہ صورت، کبھی تو کرنا کبھی نہ کرنا
لئے تو چلتے ہیں حضرتِ دل تمہیں بھی اُس انجمن میں ،لیکن
ہمارے پہلو میں بیٹھ کر تم ہمیں سے پہلو تہی نہ کرنا
نہیں ہے کچھ قتل ان کا آساں، یہ سخت جاں ہیں برے بلا کے
قضا کو پہلے شریک کرنا، یہ کام اپنی خوشی نہ کرنا
ہلاک اندازِ وصل کرنا کہ پردہ رہ جائے کچھ ہمارا
غم ِجُدائی میں خاک کر کے کہیں عدو کی خوشی نہ کرنا
مری تو ہے بات زہر اُن کو، وہ اُن کی مطلب ہی کی نہ کیوں ہو
کہ اُن سے جو التجا سے کہنا ، غضب ہے اُن کو وہی نہ کرنا
وہی ہمارا طریق ِ اُلفت کہ دشمنوں سے بھی مل کے چلنا
نہ ایک شیوا ترا ستمگر کہ دوست سے دوستی نہ کرنا
ہم ایک رستہ گلی کا اُس کو دِکھا کے ، دل کو ہوئے پشیماں
یہ حضرت خضر کو جتا دو کسی کی تم رہبری نہ کرنا
بیان درد فراق کیسا کہ ہے وہاں اپنی یہ حقیقت
جو بات کرنی تو نالہ کرنا، نہیں تو وہ بھی کبھی نہ کرنا
بُری بنی اے داغ یا د اُلفت ، خدا نہ لے جائے ایسے راستے
جو اپنی تم خیر چاہتے ہو تو بھول کر دل لگی نہ کرنا