ختم ہوجائے وہ ڈگر ہی نہیں
اور مسلسل کوئی سفر ہی نہیں
درد جس زیست میں نہیں شامل
سو جنم لے کے بھی امر ہی نہیں
کیوں کریں ترک مئہ کشی زاہد
تیرا کہنا تو معتبر ہی نہیں
خود بنائیں ہم عدل کے معیار
قاضیِ وقت با ہنر ہی نہیں
جاں صداؤں کو دی ہے آزادی
واں کے زنداں کا بام و در ہی نہیں
پیار کے دیپ کر وہاں روشن
روشنی کا جہاں گزر ہی نہیں
لفظ در لفظ احتجاج کریں
چپ کے جملوں میں اب اثر ہی نہیں
شبِ تاریک کی میرے احسان
کون کہتا ہے کہ سحر ہی نہیں