مَیں فکرِ سخن میں کہاں آگیا
کہ زیرِ قدم آسماں آگیا
بجا، کہ جام بکف ہوں مگر شراب کہاں ہے؟
گجر تو، خیر، بجا لیکن آفتاب کہاں ہے؟
اس بے بسی میں آپ ہی اپنی نظیر ہیں
ہم نگہتِ چمن کے بھنور میں اسیر ہیں
میری بینائی کا دھوکا ہے کہ ایّام کا پھیر
ابدیّت کا افق ہے کہ گھروندے کی منڈیر
سحر بدست بھی ہے شب، اگر سیاہ بھی ہے
چٹان سنگ ہے، لیکن صنم پناہ بھی ہے