سحر نے اندھی گلی کی طرف نہیں دیکھا
جسے طلب تھی اسی کی طرف نہیں دیکھا
قلق تھا سب کو سمندر کی بے قراری کا
کسی نے مڑ کے ندی کی طرف نہیں دیکھا
کچوکے دیتی رہیں غربتیں مجھے لیکن
میری انا نے کسی کی طرف نہیں دیکھا
سفر کے بیچ یہ کیسا بدل گیا موسم
کہ پھر کسی نے کسی کی طرف نہیں دیکھا
تمام عمر گذاری خیال میں جس کے
تمام عمر اسی کی طرف نہیں دیکھا
یزیدیت کا اندھیرا تھا سارے کوفے میں
کسی نے سبطِ نبی کی طرف نہیں دیکھا
جو آئینے سے ملا آئینے پہ جھنجھلایا
کسی نے اپنی کمی کی طرف نہیں دیکھا
مزاجِ عید بھی سمجھا تجھے بھی پہچانا
بس ایک اپنے ہی جی کی طرف نہیں دیکھا