شوریدہ سر اٹھے تو قلم کردیئے گئے
طوفاں کیا اس طرح سے ختم کردیئے گئے
مظلوم پر ہی ٹوٹا ہے جبر و قہر یہاں
کمزور پر ہی جور و ستم کردیئے گئے
آنکھوں سے نور چھین کر کاٹی گئی زباں
جذبے کچھ اسطرح سے مدھم کردیئے گئے
زنداں کی سنگلاخ چٹانوں پہ خون سے
قصے بغاوتوں کے رقم کردیئے گئے
جنکے ضمیر دن کے اجالوں میں تھے بکے
وہ رات کے اندھیروں میں ضم کردیئے گئے
نیزوں کی انیوں پہ صحیفے بلند تھے
اسباب نفرتوں کے بہم کردیئے گئے
جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں حسین
ان ہی کے نام باغ و ارم کردیئے گئے
جب بھی کہیں یزید کی فوجیں جمع ہوئیں
اونچے حسینیت کے علم کردیئے گئے
دل میں اشہر یزید کی نفرت لیئے گیا
بس اس وجہ سے اس پہ کرم کردیئے گئے