سر اڑانے کے جو وعدے کو مکرر چاہا
ہنس کے بولے کہ تیرے سر کی قسم ہے ہم کو
دل کے خوں کرنے کی کیا وجہ؟ و لیکن نا چار
پاسِ بے رونقیِ دیدہ‘ اَہم ہے ہم کو
تم وہ نازک کہ‘ خموشی کو فغاں کہتے ہو
ہم وہ عاجز کہ‘ تغافل بھی ستم ہے ہم کو
لکھنؤ آنے کا باعث نہیں کھلتا‘ یعنی
ہوسِ سیر و تماشا‘ سو وہ کم ہے ہم کو
مقطعِ سلسلۂ شوق نہیں ہے‘ یہ شہر
عزمِ سیرِ نجف و طوفِ حرم ہے ہم کو
لیے جاتی ہے کہیں ایک توقع‘ غالب
جادۂ رہ کششِ کافِ کرم ہے ہم کو