سر ِ شہر ِ ہُنر ، رنگِ ہُنر تبدیل کر سکتا
اگر تُو اپنا انداز ِ نظر تبدیل کر سکتا
مجھے طوفان کا رُخ موڑتے رہنے کی عادت ھے
مری کشتی کا رُخ کیسے بھنور تبدیل کر سکتا
بھٹکتا کیوں سر ِ راہِ طلب صبح و مسا تنہا
اگر میں اِس مسافت کی ڈگر تبدیل کر سکتا
حق ِ تحریف جو حاصل کبھی ہوتا زمانے کو
زبور ِ وقت کی زیر و زبر تبدیل کر سکتا
مرے جینے کا یہ انداز پھر کُچھ اور ہی ہوتا
کسی صورت اگر شام و سحر تبدیل کر سکتا
ترے کہنے پہ جیسے خود کو پہلی بار بدلا تھا
میں اپنے آپ کو بار ِ دگر تبدیل کر سکتا
محبت کے شجر کو اِس طرح ہم سینچتے یاور
کوئی موسم نہ مقدار ِ ثمر تبدیل کر سکتا