سر کو آواز سے وحشت ہی سہی

Poet: عامر سہیل By: مصدق رفیق, Karachi

سر کو آواز سے وحشت ہی سہی
اور وحشت میں اذیت ہی سہی

خاک زادی ترے عشاق بہت
میں تری یاد سے غارت ہی سہی

وہ کہاں ہیں کہ جو مصلوب نہ تھے
میری مٹی میں بغاوت ہی سہی

آہ و آہنگ و اہانت کے کنار
اے مری پیاس پہ تہمت ہی سہی

خود سے میثاق غلط تھا میرا
اے ترے خواب ضرورت ہی سہی

عشق اے عشق عزادار ہوں میں
دوش پہ بار ہزیمت ہی سہی

پھر کسی خواب کی بیعت کر لیں
پھر کسی دکھ کی تلاوت ہی سہی

ایک خواہش کہ جسے سینچ سکیں
رائگانی کی ریاضت ہی سہی

ہم سے کچھ اور تو کیا ہونا ہے
اک ترے غم کی حفاظت ہی سہی

لوٹتے ہیں کہ بلاتا ہے کوئی
بارش سنگ ملامت ہی سہی

ٹوٹتے ہیں کہ نشہ ٹوٹتا ہے
خود سے ملنے میں اذیت ہی سہی

اب کسی اور کی خواہش ہی کہاں
اب ترے ہجر سے فرصت ہی سہی

کاغذی شہر اڑے جاتے ہیں وہ
آسمانوں کی رفاقت ہی سہی
 

Rate it:
Views: 151
08 Apr, 2025