سرد ہواؤں میں بکھر جانے کا ڈر رہتا ہے
ریت کی طرح سنور جانے کا ڈر رہتا ہے
مرا دل اب کچھ نہیں مانتا مری
دل لے کے پھر اسکے در جانے کا ڈر رہتا ہے
چپ ہوں ساکت ہوں بہت رنجیدہ ہوں میں
کچھ ہو نہ جائے کچھ کر جانے کا ڈر رہتا ہے
اسکے وعدوں پہ یقیقن اب کیسے کروں
کہ اسکا وعدوں سے پھر جانے کا ڈر رہتا ہے
بڑی مہارت سے اترا تھا وہ مرے آئینہ دل میں
توڑ دیا شیشہ دل کہ پھر اسکے اتر جانے کا ڈر رہتا ہے