سرِ آئینہ جو انسان نظر آتے ہیں
پسِ آئینہ وہ حیوان نظر آتے ہیں
پیکرِ شر ہوے اِس دور کے آدم زادے
آدمیت سے ہی انجان نظر آتے ہیں
زر و جوہر کی محبت کا فسوں ہے شاید
نِگَہِ فیض کے فقدان نظر آتے ہیں
کوئی بھی گوشۂ عالم نہیں فرحت انگیز
ہر طرف دشت و بیابان نظر آتے ہیں
غرقِ وحشت ہیں اگر پاس سے دیکھیں کہسار
دور سے وہ بھی پری شان نظر آتے ہیں
کبھی سرشار تھی یہ بزمِ جہاں راحت سے
اب فقط درد کے عنوان نظر آتے ہی