سرکشی تو ہر آداب بھلا دیتی ہے
ماضی کا ہر حساب بھلا دیتی ہے
دل گرفتہ روح گھائل ہو اگر
محفل بھی سناٹوں کا سماں دیتی ہے
شجر سے پھول گرنے کو ہوں بیقرار
ہلکی سی ہوا بھی دور تک پہنچا دیتی ہے
گر منافقت کی بو پھیلی ہو چارسو
پھر سچائی کی خوشبو کہاں آتی ہے
مسافر ہیں نالاں کیوں رکتا نہیں رزاق
ہمسفروں کو یہی منزل نظر آتی ہے