کیا سناؤں سفر کی، وضاحتیں کم ہیں
آبلا پہ ہے بدن میں اور رفاقتیں کم ہیں
کیا ہوا تیرے انتظار میں زندگی کا حال
طوفاں سا اٹھ چلا ہے اور صداقتیں کم ہیں
اب ملی ہے زندگی عجب راستے پہ تنہا کھڑی
کیا کہو مسافت ہے لمبی اور حکایتیں کم ہیں
کسے کیا خبر کہ میرے دل کو ہے کیا ملال
زندگی ہے کٹھن سی اور رعایتیں کم ہیں
میری تنہا روی کا خیال تو میرا وجود بھی بھول گیا
ذلتیں ہیں فراق میں اور وراثتیں کم ہیں
نصاب وفا تو دفن ہو چلا ہے اس دنیا میں
بچی ہیں رنجشیں اور کرامتیں کم ہیں
اب تو کوچ کر اس دنیا سے ساگر کہ یہاں
نفرتوں کا جال بچھا ہے اور محبتیں کم ہیں