سفرحیات میں مجھے صرف خسارہ ہی ملا
جیسے راہی کو منزل کا اشارہ نہ ملا
درپیش یوں ھوئ صعوبتیں راہ وفا میں
داغ دل مٹانے کے لیے مرہم تو ملا پر سہارا نہ ملا
پتھرا گئ آنکھیں وفائے جگنو کی آس میں
تلاش امید میں ہمسفر تو ملا پرراہنما نہ ملا
مٹا گیا میرا نقش وہ آج اور کل کی تفریق میں
راہ الفت میں دھوکا تو ملا پر اپنا نشاں نہ ملا
آزمائشیں دی ھیں خدا نے یوں روانی سے“فائز“
دل ناداں کو حوصلہ تو ملا پر وسیلہ نہ ملا