سلگتی سوچ کی بستی میں اب بسیرا ہے
جو کل تلک تھا میرا آج سے وہ تیرا ہے
ذرا سلیقے سے اس کو سنبھال کر رکھنا
یہ نور ہے میری راتوں کا یہ سویرا ہے
تجھے بتاتی چلوں طبع کا یہ ہے نازک
بٹھانا پلکوں پہ باہر بڑا اندھیرا ہے
جو میری آنکھوں کو بنجر بنا گیا ہے، سنو
اسی کے عشق سمندر نے مجھ کو گھیرا ہے
میں اپنی پوروں سے یہ کرچیاں بھی چن لوں گی
نہ اضطراب ہو تجھ کو یہ درد میرا ہے
میں سوچتی ہوں سوچوں کبھی تو اُس کے سوا
کروں میں کیا میری چاہوں پہ اُس کا ڈیرا ہے