دل کے کسی خانے میں جلتا ہو گا
وہ دھواں ہے سو سُلگتا ہوگا
ہوگا منتظر کسی چِنگاری کا
ہوا مل جاۓ یہی سوچتا ہوگا
چراغ بُجھتے بُجھتے پھر سمنبھل گیا
دل دھڑکتے دھڑکتے پھر تھم گی
راکھ کر گئ دنیا کی نا آشنائی مجھے
یہ دل تھا سو عقل سے فارغ تھا
آگ لگنا چاہتی تو لگ بھی سکتی تھی
بجھتی ہوئ چنگاری سُلگ بھی سکتی تھی
آرزو کب وسائل کو دیکھا کرتی ہے ؟
جو دیکھ لے پھر وہ آرزو کیسی؟
سُر اپنی ہی آہ سناتے رہے رات بھر
اور غم پہلو میں بیٹھ کر دل پر غور کرتا رہا
آسماں سرخ تھا اسلیے جینا محال کر گیا
زمیں تیز چلی بہت تیز کہ چلنا محال کر گئ
قوت دل تھی اور وہ بھی زخمی زخمی
کلیجہ تھا وہ بھی ڈگمگاتا ہوا
کچھ دقتیں رہی اِس دل کمزور کو
کچھ راحتیں رہی اس دل پرسکون کو
سورج رات کی خاموشی میں مر گیا
رات سورج کی روشنی میں بے تاب رہی
یہ چل رہا تھا جو بھی مامعلہ کیا تھا؟
اپنی تو سمجھ سے ہی باہر تھا
حسین وادیاں درخشاں کہانیاں تھیں
وسیع پیمانے تھے مگر جام سے خالی تھے
کہیں ہوش تھا مگر کچھ یاد نہ تھا
کہیں محرومی نے سب کچھ عیاں کر دیا
کوئی کھیل تھ تماشا تھا یا کوئ چال جاری تھی
جو بھی تھا !سعدیہّ اپنی سمجھ سے عاری تھا