میرے پاس کہنے کو بہت ہے
لیکن کس سے کہوں
سمجھ نہیں آتی
آنکھوں میں بہنے کو آنسوؤں بہت ہیں
کس کے کندھے پہ رکھ کے بہاوں
سمجھ نہیں آتی
چوڑ شیشہ دل ہاتھوں پہ رکھئے ہوں
حال کس کو دل کا سناؤں
سمجھ نہیں آتی
ہر کوئی اپنے چہرے پر نقاب اوڑھے ہے
اعتبار کس پر جتاؤں
سمجھ نہیں آتی
کوئی مجھے حال دل سنائے میرا حال دل سنے
انتظار کب تک رہے گا
سمجھ نہیں آتی
اک دن شاید میں بھی پیار کرنا چھوڑ دوں
بات یہ ممکن ہے کیا
سمجھ نہیں آتی