سمجھی نہ جسے میں وہ نظارہ ہے ادھر بھی
خاموش اداؤں کا اشارہ ہے ادھر بھی
آنکھوں میں وہ طوفان و تلاطم کی طرح تھا
اک اشک جو یادوں نے اتارا ہے ادھر بھی
سچ سننے کی چاہت ہے نہ عادت اس کو
بس جھوٹ ہے ایسا کہ جو پیارا ہے ادھر بھی
دیکھا ہے بہاروں میں خزاؤں کا مچلنا
اک موسم گل ہم نے گزارا ہے ادھر بھی
ٹوٹی ہوئی کشتی کے مسافر کو بتا دو
دریا کا فرح ایک کنارہ ہے ادھر بھی