کبھی ملا تھا وہ۔ کبھی کا بچھڑ گیا
چلتا رہا سمے دل ہی ٹھہر گیا
سنا ہے اداس رہتا ہے وہ آج کل
دینے اسے پرسہ شہر کا شہر گیا
روتا ہے کون کسی کے لیے عمر بھر
چڑھتا دریا تھا سو وہ بھی اتر گیا
قسم سے بھلا دیا اسے عرصہ ہوا
ذکر پار پہ کیوں پانی آنکھوں میں بھر گیا
مصلحتون کی نظر ہوی محبتیں جس پل
جیتے جی کوئ اسی دن مر گیا
وحشتوں نے ڈیرے لگا لیے وہاں پر
مدتوں سے میں بھی نہیں گھر گیا
آج پھر رت اداس ہے بہت ۔گمان ہے
اعتباروفا میں پھر سولی کوئ چڑھ گیا